تفسير ابن كثير



سورۃ النمل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ[71] قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِي تَسْتَعْجِلُونَ[72] وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ[73] وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ[74] وَمَا مِنْ غَائِبَةٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ[75]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور وہ کہتے ہیں کب ( پورا) ہوگا یہ وعدہ، اگر تم سچے ہو؟ [71] کہہ دے قریب ہے کہ تمھارے پیچھے آپہنچا ہو اس کا کچھ حصہ جو تم جلدی مانگ رہے ہو۔ [72] اور بے شک تیرا رب یقینا لوگوں پر بڑے فضل والا ہے اور لیکن ان کے اکثر شکر نہیں کرتے۔ [73] اور بے شک تیرا رب یقینا جانتا ہے جو ان کے سینے چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ [74] اور آسمان و زمین میں کوئی غائب چیز نہیں مگر وہ ایک واضح کتاب میں موجود ہے۔ [75]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کہتے ہیں کہ یہ وعده کب ہے اگر سچے ہو تو بتلا دو [71] جواب دیجئے! کہ شاید بعض وه چیزیں جن کی تم جلدی مچا رہے ہو تم سے بہت ہی قریب ہوگئی ہوں [72] یقیناً آپ کا پروردگار تمام لوگوں پر بڑے ہی فضل واﻻ ہے لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں [73] بیشک آپ کا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جنہیں ان کے سینے چھپا رہے ہیں اور جنہیں ﻇاہر کر رہے ہیں [74] آسمان وزمین کی کوئی پوشیده چیز بھی ایسی نہیں جو روشن اور کھلی کتاب میں نہ ہو [75]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ [71] کہہ دو کہ جس (عذاب) کے لئے تم جلدی کر رہے ہو شاید اس میں سے کچھ تمہارے نزدیک آپہنچا ہو [72] اور تمہارا پروردگار تو لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے [73] اور جو باتیں ان کے سینوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں اور جو کام وہ ظاہر کرتے ہیں تمہارا پروردگار ان (سب) کو جانتا ہے [74] اور آسمانوں اور زمین میں کوئی پوشیدہ چیز نہیں ہے مگر (وہ) کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے [75]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 71، 72، 73، 74، 75،

قیامت کے منکر ٭٭

مشرک چونکہ قیامت کے آنے کے قائل ہی نہیں۔ جرات سے اسے جلدی طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر سچے ہو تو بتاؤ وہ کب آئے گی۔ جناب باری کی طرف سے بواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جواب مل رہا ہے کہ ممکن ہے وہ بالکل ہی قریب آ گئی ہو۔

جیسے اور آیت میں ہے «عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَرِيْبًا» [17-الإسراء:51] ‏‏‏‏ اور جگہ ہے «يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ» [29-العنكبوت:54] ‏‏‏‏ ” یہ عذابوں کو جلدی طلب کر رہے ہیں اور جہنم تو کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔“ «لکم» کا لام ردف کے «عجل» کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے ہے۔ جیسے کہ مجاہد سے رحمہ اللہ مروی ہے۔

پھر فرمایا کہ اللہ کے تو انسانوں پر بہت ہی فضل و کرم ہیں۔ اس کی بےشمار نعمتیں ان کے پاس ہیں تاہم ان میں سے اکثر ناشکرے ہیں۔ جس طرح تمام ظاہر امور اس پر آشکارا ہیں اسی طرح تمام باطنی امور بھی اس پر ظاہر ہیں۔ جیسے فرمایا «سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ» [13-الرعد:10] ‏‏‏‏

اور آیت میں ہے «‏‏‏‏يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي» [20-طه:7] ‏‏‏‏ اور آیت میں ہے «اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ» ‏‏‏‏ [11-هود:5] ‏‏‏‏ مطلب یہی ہے کہ ہر ظاہر وباطن کا وہ عالم ہے۔

پھر بیان فرماتا ہے کہ ہر غائب حاضر کا اسے علم ہے وہ علام الغیوب ہے۔ آسمان و زمین کی تمام چیزیں خواہ تم کو ان کا علم ہو یا نہ ہو اللہ کے ہاں کھلی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔ جیسے فرمان ہے کہ کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان و زمین کی ہر ایک چیز کا اللہ عالم ہے۔ سب کچھ کتاب میں موجود ہے اللہ پر سب کچھ آسان ہے۔
6493



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.